گلہ کیا کریں بے وفائی کا اُن سے
وہ خوش ہے بہت دِل کو میرے جلا کے
دعا ہے خدا خوش رکھے اُس کو ہر پل
جی لیں گے ہم ارمان دِل میں دبا کے
کہیں کل نہ تہمت محبت کو دے وہ
یہی سوچ کر چل دئے رخت اُٹھا کے
وہ محبوب ہے جو کہے سو کہے تم،
ہو عاشق۔ سُنو سر کو اپنے جھکا کے
دیا ہے مِرے مولا یہ درد کیسا
رہے گا مِری زندگی یہ بجھا کے
مسیحا کوئی بھیج یا بن دوا خود
مَرے عبد تیرا نہ تجھ کو بُھلا کے
یہ کیا کہہ رہے ہو اے بندہ ءِ پرور
وہ اپنا رہا ہے تجھے آزما کے
رکھو رابطہ رَب سے زیدؔی سدا اور
کرو بوجھ ہلکا غمِ دِل سُنا کے

0
51