پھر چتر رچایا تماشا ہے
یوسف پہ فریبِ زلیخا ہے
زباں بندی کرکےُہنستا ہے
کہنے کو قاضی مسیحا ہے
میرے وجدان کا پرتو ہے
میرے باہر جو اجالا ہے
گزری پردیس میں عمر افری
رہنا اپنے وطن میں تمنا ہے

0
31