ابھرا ہے شاعری کے افق پر نیا نیا
ہے اک ستارہ میرا سخنور نیا نیا
۔
کچھ حل نکالیں شیخ ! کہ ممکن ہے یہ ابھی
تھا نرم دل ، ہوا ہے وہ پتھر نیا نیا
۔
لگنے میں جی یہاں پہ ہمارا ، لگے گا وقت
بدلا ہے ہم نے اپنا ابھی گھر نیا نیا
۔
واعظ ترا عمامہ و گردن تری کا طوق
بتلاتے ہیں ملا ہے یہ منبر نیا نیا
۔
بام و در اس کے آج تلک کانپتے ہیں یوں
جیسے ہوا ہے فتح یہ خیبر نیا نیا
۔
مجھ سے کرو نہ بحث روایات عشق پر
میں نے کیا ہے یہ سبق ازبر نیا نیا
۔
کچھ دیر میرے سحر کی زد میں رہے گا شہر
پھوکا ہے ریختہ کا یہ منتر نیا نیا
۔
چھوڑو روایتی یہ مضامین وصل و ہجر
شامل کرو سخن میں مدثر ! نیا نیا

0
17