امن کی کوئی ابتدا کرتے
عمر گزری ہے انتہا کرتے
ہم سے کہتے ہیں تبصرہ کرتے
نوحہ یا مرثیہ کہا کرتے
تشنہ لب اس میں چپ رہے سارے
کیا سمندر سے وہ گلہ کرتے
کہہ بھی دیتے جو داستانِ غم
کیا ضروری ہے وہ سُنا کرتے
راستہ جو انہیں دکھائے گا
کاش اُس کو وہ رہنُما کرتے
اس پہ ہم نے یقین رکھا ہے
اس کا ہم کیا نہ آسرا کرتے
اس کی آنکھوں نے ہی رکھا مخمور
اور کیا کوئی ہم نشّہ کرتے
امن کی راہ کچھ نکل آتی
ہم بھی راضی اگر خدا کرتے
ہم نہ طارق بدل دیں سوچ اپنی
کچھ کریں بھی ہیں گر دُعا کرتے

0
17