| محبت کے اصولوں پر صداقت سے اگر چلتے |
| دغا خود سے نہیں کرتے محبت سے اگر چلتے |
| بدلتے ہیں سبھی موسم سدا اک رت نہیں رہتی |
| کبھی رسوا نہیں ہوتے شرافت سے اگر چلتے |
| نمی ساحل تلک بھی ہے سمندر کے ذخیروں کی |
| کبھی قدموں تلے پانی ابلتا تھا اگر چلتے |
| سیاست سے محبت کا کبھی رشتہ نہیں بنتا |
| تجھے صدمے لگے ہوتے سیاست ہم اگر چلتے |
| خریدا تو نہیں میں نے اسے بکتا ہوا دیکھا |
| خریداری ہماری تھی رقم لے کے اگر چلتے |
| کبھی خرم نشانوں پر نشانے بھی نہیں لگتے |
| مگر میرے لگے ہوتے نشانے ہم اگر چلتے |
| ۔۔۔خرم جواد۔۔۔ |
معلومات