شاہدؔ تو اب سکون سے خود پر کتاب لکھ
جو درد و غم سہے ہیں اب ان کا حساب لکھ
دامن میں اپنے کانٹے سمیٹے تمام عمر
اب شامِ زندگی میں تو تھوڑے گلاب لکھ
تو ایک اور سارا زمانہ ترے خلاف
ناکام تو ہوا پر اسے کامیاب لکھ
تبدیل کر دے اپنی تو ساری کہانیاں
جو پل گذر گیا تو اسے اب سراب لکھ
ہونٹوں کو لگ گیا ہے تمھارے ہمارا خون
خونِ جگر کو اپنے لیے تو شراب لکھ
اس ایک لفظ نے تجھے برباد کر دیا
اب پیار کی جگہ پہ تو لفظِ عذاب لکھ
ق
کاندھے پہ اپنے تجھ کو اٹھایا تمام عمر
کھاتے میں کچھ نہ کچھ تو مرے تو ثواب لکھ
دل میں سوال تھے کئی پر خوف تھا بہت
پوچھے نہ جا سکے جو اب ان کے جواب لکھ
سچ بولنے کا وقت ہے ہمت ذرا دکھا
جو ہے خراب تو بھی اسے اب خراب لکھ
نسلیں ہماری ذلتوں میں ڈوب جائیں گی
ہر اک زبان پر یہاں اب انقلاب لکھ

0
47