ضلالت تو ہے ہی حقیقت میں آگ
ولی نے لگائی ولایت میں آگ
بھروسہ وفا پر بھی ہوتا نہیں
صداقت، شرافت ، اطاعت میں آگ
کبھی دشمنوں میں بھڑکتی تھی پر
بھڑکتی ہے اب تو اخوت میں آگ
ابھی شہر کی ہم سے حالت نہ پوچھ
یہاں ہر طرف ہر عمارت میں آگ
غریبوں کی کوئی بھی سنتا نہیں
حکومت ، امارت،سیاست میں آگ
کسی کو بھی دل اپنا ہرگز نہ دے
محبت میں الفت میں چاہت میں آگ
یہی زندگی نے سکھایا ہے طیب
یہ دنیا ہے راحت کی صورت میں آگ

0
123