زلفِ سیاہ یار کے خمدار دیکھ کر
میں دیکھتا ہی رہ گیا اک بار دیکھ کر
کل اک انا پرست یہ کہنے لگا مجھے
احسان تم کیا کرو معیار دیکھ کر
جام و سبو شراب سے کچھ بھی نہ ہو سکا
مخمور ہو گیا ہوں رخِ یار دیکھ کر
اوہام سو طرح کے مرے دل پہ چھا گئے
تیری نگاہِ ناز کے اطوار دیکھ کر
ہر شام و صبح زلف و رخِ یار ہیں بہم
سوبار دیکھا یار کو اک بار دیکھ کر
میں تیرے شوقِ دید میں بیمار ہو گیا
آجا اے جانِ من مجھے بیمار دیکھ کر
مغرور مجھ کو اس لیے کہتا ہے یہ جہاں
کرتا ہوں گفتگو جو میں کردار دیکھ کر
اپنوں کے ظلم و جبر سے احسنؔ اداس تھا
اور اس کو رو رہے تھے یاں اغیار دیکھ کر

4