منظور چھوڑنا ہمیں ہر کاروبار تھا
پر اُس سے دُور ہوں یہ ہمیں ناگوار تھا
پڑتا نہ حوصلہ کبھی اونچی اُڑان کا
لیکن وہ ساتھ لے کے اُڑا بار بار تھا
ہم پا پیادہ ہو لئے تھے کارواں کے ساتھ
گرچہ وہ میرِ کارواں ، تو شہسوار تھا
ہم کو بھی اس سے پیار پہ یوں ناز تھا بہت
وہ بھی پتہ چلا ہوا ہم پر نثار تھا
جب شکر ہم کریں گے وہاں پائیں گے کچھ اور
جو بھی ملا یہاں وہ بہت شان دار تھا
پائی ہیں اس نے دونوں جہانوں کی نعمتیں
اُس کی رضا کا جو ہُوا اُمّیدوار تھا
رکھتے چھپا کے ہم بھلا کیسے خلوص کو
شہ رگ کے پاس ہی تو وہ پروردگار تھا
منزل کی سمت ہی چلے ، پہنچے نہیں تو کیا
کوشش تو کی ہے ، راستہ مُشکل گزار تھا
ہم فجر کی دُعا میں اُسے ڈھونڈتے رہے
وہ پا گیا اسے جو تہجّد گزار تھا

0
39