چمن میں دیکھ کے اُس کو جو مسکرایا تھا
مرے لئے وہ وہی پھول توڑ لایا تھا
میں گھر بناتے ہوئے وہ درخت کیوں کاٹوں
کہ تیز دھوپ میں اس کا ہی مجھ پہ سایہ تھا
الگ ہوا ہوں جو دنیا سے پھر یقین ہوا
جسے سمجھتا تھا گھر اپنا وہ پرایا تھا
گیا ہے جب وہ حسیں یاد اپنی چھوڑ گیا
کسی نے ساتھ مرا یوں بھی تو نبھایا تھا
صدا وہ کانوں میں رس گھولتی ہے جب اس نے
میں سو گیا تو بڑے پیار سے جگایا تھا
کٹھن سفر تھا بہت زیست کا مگر اس نے
جو تھک گیا تو مجھے گود میں اٹھایا تھا
سفر کٹھن تھا بہت زیست کا مگر اس نے
جو تھک گیا تو مجھے گود میں اٹھایا تھا
میں کیسے چھوڑدوں انگلی ہمیشہ ہی جس نے
قدم قدم پہ مجھے راستہ دکھایا تھا
وہ جس کی کوکھ سے میں نے جنم لیا طارق
اسی نے دل میں دیا پیار کا جلایا تھا

0
56