راستے میں کبھی میں رکا ہی نہیں
تیز آندھی چلی پر جھکا ہی نہیں
عشق کیا ہے بتاتا ہوں میں آپ کو
درد ایسا ہے جس کی دوا ہی نہیں
میری خاموش فطرت سے دھوکا نہ کھا
سامنے میرے کوئی ٹکا ہی نہیں
اپنی قسمت پہ روتے تو ہو رات دن
آگے بڑھ کر مگر کچھ کیا ہی نہیں
ظلم سہتے ہو کہتے ہو آرام ہے
ڈر گئے ہو بہت یا حیا ہی نہیں
پھول کھلتے ہی مرجھا گئے باغ میں
پھر بھی مالی کی کوئی خطا ہی نہیں
جھوٹ کا بول بالا ہے طیب یہاں
اک زمانہ ہوا سچ سنا ہی نہیں

0
16