حق کا پرچار کیے گزرے پیمبر اکثر
دل جو بنجر تھے رہے دنیا میں بنجر اکثر
جو مِرے سامنے پڑھتے ہیں قصیدے پیہم
میرے جانے پہ اُٹھاتے ہیں وہ خنجر اکثر
رت خزاؤں کی یہ ہوتی تھی بہاروں جیسی
اب گزر جاتا ہے چپ چاپ دسمبر اکثر
ایک مدت سے مِری سَمت تو آیا نہ گیا
خالی رہنے سے زمیں ہوتی ہے بنجر اکثر
تو مِری ایک ملاقات سے قائل مت ہو
دور سے گہرا نہیں لگتا سمندر اکثر

0
69