| اشک تو مثلِ آب نکلے گا |
| من کا لیکن عذاب نکلے گا |
| گر وفائیں گِنے گا تُو میری |
| تیری جانب حساب نکلے گا |
| عمر بھر کی مہاجرت کا سبب |
| دل ہی خانہ خراب نکلے گا |
| خوبیِ حسن کیا بیاں ہوگی |
| دم ہی عالی جناب نکلے گا |
| بیسوا کے شکستہ بکسے سے |
| اک پرانا نقاب نکلے گا |
| کیوں کھرچتے ہو اب ان آنکھوں کو |
| اب تمہارا نہ خواب نکلے گا |
| آج افسردگی بلا کی ہے |
| مطربا ، کب رباب نکلے گا |
معلومات