اہلِ دل کی یہ نصیحت یاد رکھ
دل خدا کی یاد سے آباد رکھ
جو دُکھائے دل اسے بھی شاد رکھ
سوچ کو اپنی ذرا آزاد رکھ
وعظ یہ اقبالؔ کا تو یاد رکھ
”عشق پر اعمال کی بنیاد رکھ“
إنما الأعمال بالنيات کا
پڑھ سبق اور زندگی بھر یاد رکھ
تیری بھی ہو گی دعا اک دن قبول
تو زباں پر جاری بس فریاد رکھ
اب مریدی چھوڑ دے طاغوت کی
اہلِ دل کو ہی فقط استاد رکھ
عیب ہیں جتنے وہ سارے بھول جا
خوبیاں لوگوں کی بس تو یاد رکھ
تیرے آگے وادیِ کہسار ہے
دل میں اپنے جذبۂ فرہاد رکھ
فکرِ دنیا میں نہ ہو اتنا مگن
چھوڑ کر جانا ہے دنیا یاد رکھ
دل یہ مردہ ہو چلا حسانؔ اب
ذکرِ حق سے اس کو تو آباد رکھ

10