اِک رشتہ نہیں تم سے بڑے گہرے مراسم ہیں |
ہیں ازل سے تیرے ہم ناطے یہ پرانے ہیں |
اب حال نہیں وہ کہ ہم لفظوں میں کہہ دیتے |
اب کہنے کو حالِ دل اشکوں کے ترانے ہیں |
خود اپنے ہاتھوں سے ہم جام بھریں خود میں |
ہیں ساقی بھی خود ہم خود ہی ہم پیمانے ہیں |
بازاروں میں ڈھونڈو گے بھاگو گے گلیوں میں |
نہیں موسم ابھی بدلا کچھ دور ابھی آنے ہیں |
آنکھوں میں ہیں آنسو اور لبوں پہ تبسم ہے |
دل غم میں ہے ڈوبا سا خوشیوں کے زمانے ہیں |
یہ غزل تو کہہ سنا دوں گا میں بزمِ رقیباں میں |
ہیں دو شعر مگر ایسے جو تم کو سنانے ہیں |
اس تیر نگاہوں کے ہائے سِتم تو ذرا دیکھو |
دل میرا جِگر میرا یہ سب اسکے نشانے ہیں |
میں وہ بھی سمجھتا ہوں جو ہم سے چھپاتے ہو |
وہ راز بھی جانے ہوں جو تم نے چھپانے ہیں |
ہاں صاف ہی کہہ دو نہ کہ اب تم کو جانا ہے |
منطق جو تراشے ہو سب ہی وہ بہانے ہیں |
مسجد کو جو جاتے ہیں دوڑے ہوئے یہ زاہد |
ذہنوں میں جنت ہے حوروں کے دیوانے ہیں |
معلومات