ہمیشہ گفتگو میں جوش کی لپک آئے |
یونہی صدا میں کبھی درد کی کسَک آئے |
طویل ہو گئی ہے غم کی رات اے مولا |
شفا عطا ہو کہ چہرے پہ اب چمک آئے |
یہ بندہ تیرا ہے بیمار ہو گیا ہے جو |
تو اشک آنکھوں میں ہیں اس لئے چھلک آئے |
تری تلاش میں گزری ہے زندگی اس کی |
عمل میں اس کے ترے پیار کی جھلک آئے |
ہے سخت دھوپ کوئی سائبان سایہ ہو |
کہ ابر لے کے کوئی مہرباں فلک آئے |
وہ سب بشارتیں لے کر مبشّر آئیں گے |
وہ تجھ کو مرحبا کہنے کو جب مَلَک آئے |
دعائیں تیرے لئے ہیں امامِ وقت کی جب |
تو آنسو کیوں کوئی تیرے سرِ پلک آئے |
دعا یہی مری طارِق ہے وصل ہو جو نصیب |
نظر اسے بھی ترے پیار کی لَلَک آئے |
معلومات