حسیں پلکوں پہ میں شام لکھتا ہوں
انہی کے زندگی نام لکھتا ہوں
نشہ کرتا نہیں ہوں سنو لیکن
لبوں پر یار کے جام لکھتا ہوں
چلے جاتے ہیں اب لوگ بھی اٹھ کر
جہاں پر عشق گمنام لکھتا ہوں
کمر پتلی مہکتا بدن اس کا
مچاتا ہے جو قہرام لکھتا ہوں
سکوں میں پھر مرا قلب رہتا ہے
اسے جب اپنا ہمنام لکھتا ہوں
اسے ہیں چومتے خواب تک میرے
سناور ایسے الزام لکھتا ہوں

103