غزل دور حاضر کے سب شاعروں سے
سبھی حافیوں سے سبھی تابشو ں سے
روايت کی وه چاشنی مانگتی ہے
جو مرزا نے اس میں امانت رکھی تھی
جو مومن سے اس کو وراثت میں ملی تھی
وہی چاشنی جس کو حسرت کی غزلوں نے گھاڑا کیا تھا
وہی چاشنی جس کو لفظوں کے دھیمے سروں پر جگر نے تھا غزلوں میں ڈالا
غزل ہے وه شے جو سمیٹے نہ سمٹے
پہاڑوں سے اونچی سمندر سے گہری
یہ لکھنؤ کا جھومر یہ دلی کی پائل
یہ جدت کی حامی روایت کی قائل
نظیری کی بیٹی یہ جامی کی دلہن
یہ شاہوں کی سطوت گداؤں کی عظمت
غزل اک تمنا
غزل ایک دنیا
غزل زندگی ہے
غزل دل لگی ہے
غزل امن بھی ہے غزل آشتی ہے
غزل اصل میں اک روایت ہے جو کہ گذشتہ زمانوں سے سینہ بہ سینہ چلی آرہی ہے
کئی لوگ اس کو لیے جدتوں کی سبھی سرحدوں کو چھو آے
کئی لوگ ایسے بھی آئے جنہوں نے روایت کے اعلی مضامیں کوہی مختلف تجربوں سے گزارا
کسی نے فعولن فعولن فعولن پہ
باندھا
کسی نے اسی کو موسیقی میں ڈھالا تو لاکھوں سروں کا جنم ہو گیا
مگر دور حاضر کے سب شاعروں نے
غزل سے مقام غزل چھین ڈالا
غزل آج اردو کے دامن میں ایسے پڑی ہے
کہ جیسے کوئی بانجھ بیوہ ہو دائم
جو بے بس ہو لاچاروناچار ہو
جو زمانے میں ہر اک طرف خوار ہو
اور نظر کرم کی طلب گار ہو

33