جب کبھی میرے سُخن کے ہیں جو قاری، بدلے
خود بہ خود ہی مرے شعروں کے معانی بدلے
لائے لفظوں کے چراغوں میں جلا کر مضمون
قسمتِ تیرہ شبی جس سے سخن کی بدلے
لیلہ و ہیر کے افسانوں سے بیزار ہیں ہم
کوئی کردار ہی بدلے کہ کہانی بدلے
آپ کا وعظ کہ ہو درگزر، اے شیخ، درست
کئی مجھ کو ابھی لینے ہیں ضروری بدلے
۔
بدلی جاتی یہ اگر آپ کی ہوتی عادت
فطرتِ جور و جفا کیسے کسی کی بدلے
۔
کیسے ہو امن و امان ایسے وطن میں قائم
کہ جہاں زر کے عوض فیصلے قاضی بدلے۔

0
3