رونق جہاں کی چرخ کا محور خدا کا گھر
سنسار میں امان کا پیکر خدا کا گھر
بالا قدی میں صنعتِ داور خدا کا گھر
عظمت میں دیں کا قبلہِ آخر خدا کا گھر
نبیوں کی یادگار ہوں خوابِ خلیل ہوں
بیتِ شرف ہوں آیتِ ربِ جلیل ہوں
تعمیر جو کیا مجھے رب کے خلیل نے
بخشا جمال معنیِ نطقِ جمیل نے
عزت بڑھادی حضرتِ خلقِ اصیل نے
سورہ پڑھا جو چھت پہ جہاں کے کفیل نے
یوں بھی شرف ہوا تھا سوا میری ذات کا
سجدہ جو میری سمت ہوا شش جِہات کا
اک اور ہے شرف مری عزت کے باب میں
لکھا گیا ہے بحر کو ظرفِ حباب میں
عزت ملی حضورِ رسالت مآب میں
بیتِ ولد بنا جو میں ان کی جناب میں
پیدا ہوئے امیر تو رحمت کا در بنا
اس روز سے میں چرخ میں اللہ کا گھر بنا
اس اوج پر بھی ہے مجھے اس بات کا پتا
ہے ایک سرزمین مگر مجھ سے بھی سوا
عظمت میں کوئی اس کے مقابل نہیں ہوا
معمور بھی نہیں ہے تو وقعت مری ہے کیا
ہم کو شرف دیا ہے نگاہِ رسول نے
بخشا وقار ہے اسے خونِ بتول نے
وہ سر زمین ہے جسے کہتے ہیں کربلا
جو عزت و وقار میں ہے عرش کی جگہ
رہتا ہے اس زمین پہ خلقت کا دیوتا
جس کا ہے نام حضرتِ عباسِ باوفا
سب ہیں کنشت کعبہ جہانِ امور میں
کعبہ پئے طواف ہے ان کی حضور میں
گیتی میں دو مقام معلیٰ کہے گئے
اک عرش ہے جہاں پہ بنائے بشر گئے
اور دوسرا معلیٰ ہے ماھتاب کے تلے
انسانیت نے پائے جہاں اوج مرحلے
انساں بنایا جاتا ہے اس عرش پاک پر
انسانیت پنپتی ہے کربل کی خاک پر
حق ہے کہ اس جہان کا محور مجھی میں ہے
لیکن مرے بقا کی ضمانت اسی میں ہے
سمجھو تو رمز زیست اسی نوکری میں ہے
محوِ طواف تربتِ ابنِ علی میں ہے
پھیرا تھا جو خلیل نے خنجر جنون سے
تعبیر کر دیا اسے اکبر کے خون سے
اور آخری ودا کو جو آئے حرم میں شاہ
اک حشر تھا رسول کے گھر والوں میں بپا
خنجر تلے حسین نے سجدہ کیا ادا
تفسیر گر بیاں ہو جو اس کی تو الاماں
سمجھے بشر جو رمز شہادت حسین کا
سجدہ گہے جہان ہو مرقد حسین کا

0
57