| اب نہیں ہوتی حیرت کسی چیز پر |
| اب تو حیرت کا مرکز مری ذات ہے |
| جام و بادہ بھی ہے وہ میسر بھی ہے |
| دل ہے پھر مضطرب تو کوئی بات ہے |
| پھولوں نے مجھ کو ہنستے ہوئے یہ کہا |
| اب کرو گریہ تم فصلِ برسات ہے |
| پھولوں سے تجھ کو الفت ہوئی ہے تو اب |
| کانٹوں سے تیرے اس لب پہ کیوں ھیھات ہے |
| سایۂ پیڑ نے مجھ سے اک دن کہا |
| اے جواں تجھ پہ سایۂ بد ذات ہے |
| کر رہا ہوں بیاں میں تری داستاں |
| داستا میں سہی تیرا تو ساتھ ہے |
| چل ذرا ہم بھی کرتے ہیں اس سے وفا |
| دیکھتے ہیں کہ کیا اس کی اوقات ہے |
معلومات