عشق کا روگ لگ گیا ہو گا
اور کوئی نہ راستا ہو گا
چھوڑ کر موڑ مڑ گیا خود سے
میں نے ہی کچھ نہ کچھ کہا ہو گا
اس نے موقع نہیں دیا مجھ کو
میرے ماضی سے آشنا ہو گا
روح کے زخم کون سیتا ہے
شک مجھے ہے کہ وہ خدا ہو گا
درد بڑھنے دو تم ابھی شاہدؔ
حد سے گذرے گا پھر دوا ہو گا

60