خواب آنکھوں سے نکالے نہیں جاتے |
درد اب ہم سے سنبھالے نہیں جاتے |
بڑھے ہیں غیر سے جب ان کے مراسم |
مجھ کو تو اب جاں کے لالے نہیں جاتے |
وہ اگر میرا ہے تو پھر کہے مجھ سے |
ورنہ ایسے مرے نالے نہیں جاتے |
صدمے آ کر جو مرے گھر میں بسے ہیں |
دکھ یہ اب مجھ سے تو ٹالے نہیں جاتے |
تم تو ہر بات پہ طعنہ دے رہے ہو |
ہم سے تو شکوے اچھالے نہیں جاتے |
اب تو سورج کی انا مجھ سے ہے ورنہ |
گھر سے میرے یوں اجالے نہیں جاتے |
نقد ِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِجاں کیوں رکھے ہو سوختہ جاں اب |
شوق تیرے کیوں نرالے نہیں جاتے |
جو بھی دل میں ہے کسی سے کہہ دو ساغر |
ارماں سینے میں یوں پالے نہیں جاتے |
معلومات