خواب آنکھوں سے نکالے نہیں جاتے
درد اب ہم سے سنبھالے نہیں جاتے
بڑھے ہیں غیر سے جب ان کے مراسم
مجھ کو تو اب جاں کے لالے نہیں جاتے
وہ اگر میرا ہے تو پھر کہے مجھ سے
ورنہ ایسے مرے نالے نہیں جاتے
صدمے آ کر جو مرے گھر میں بسے ہیں
دکھ یہ اب مجھ سے تو ٹالے نہیں جاتے
تم تو ہر بات پہ طعنہ دے رہے ہو
ہم سے تو شکوے اچھالے نہیں جاتے
اب تو سورج کی انا مجھ سے ہے ورنہ
گھر سے میرے یوں اجالے نہیں جاتے
نقد ِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِجاں کیوں رکھے ہو سوختہ جاں اب
شوق تیرے کیوں نرالے نہیں جاتے
جو بھی دل میں ہے کسی سے کہہ دو ساغر
ارماں سینے میں یوں پالے نہیں جاتے

128