عشق تیرا ہے بندگی میری
تجھ پہ مٹنا ہے زندگی میری
نامِ نامی زباں پہ آتے ہی
بات بگڑی ہوئی بنی میری
ہر برائی کا میں تو پیکر ہوں
لاج رکھیو مرے نبی میری
غم نہیں پھر مجھے کوئی جب ہے
تیرے ہاتھوں میں یاوری میری
میں ترا سب سے کم تریں بَردہ
زہے قسمت یہ چاکری میری
گردِ رہ کو تری میں پا نہ سکا
محوِ حیرت ہے آگہی میری
آپ ہی کی عطا ہے یہ غم بھی
آپ ہی سے ہے ہر خوشی میری
دلِ بسمل، نظر بکوئے حبیب
مجھ کو بھاتی ہے بے کلی میری
وقتِ آخر ترے ہی جلوے ہوں
آرزو ہے یہ آخری میری
ناز آقا کی نعت کیسے لکھوں
آڑے آتی ہے بے بسی میری

0
63