تم بتا دو حادثہ جو اس سفر ہویا نہ تھا
کچھ نہیں میں کہہ سکا کہ وہ لبِ گویا نہ تھا
خوشہ خوشہ ہو کہ میری فصل لوگوں میں بٹی
وہ یہاں کاٹا ہے میں نے جو کبھی بویا نہ تھا
آج پتھر بھی پگھل کر پانیوں میں بہہ گیا
وہ بھی رویا دکھ میں میرے جو کبھی رویا نہ تھا
وہ بہت حیران تھا کہ کیسے پہچانا اسے
کھو دیا تھا اس نے مجھ کو میں اسے کھویا نہ تھا
لٹ لٹا کے آج شاہدؔ نیند گہری سو گیا
آج وہ سویا ہے یوں جیسے کبھی سویا نہ تھا

0
50