مسرور سبھی تیرے انداز ہیں شاہانہ
مسکین طبیعت ہے فطرت ہے امیرانہ
ہر لفظ ترے لب پر ہے گوہرِ یک دانہ
کرتا ہے دلوں پر اک تاثیر جدا گانہ
صحبت میں تری رہ کر دل پاک ہوں ویسے بھی
پھر تیری نصیحت کا انداز حکیمانہ
دل تیری محبّت میں دیوانے ہوئے ایسے
دیکھے ہیں جو آنکھوں سے اخلاق کریمانہ
یہ حسن کا جلوہ ہے یا کوئی کرامت ہے
ہر اک تری چاہت میں کیسا ہوا دیوانہ
ہے سر پہ ترے جب سے دستار خلافت کی
تُو شمع ہے ہر دل کی ہر دل ترا پروانہ
رہتا ہے کھلا تیرا مے خانہ پئیں سب ہی
مجھ پر بھی نظر ساقی ہے عرضِ فقیرانہ
کم ظرف ہوں محفل میں کیسے تجھے یہ کہہ دوں
ڈر ہے کہ نہ رہ جائے خالی مرا پیمانہ
ہم تیری اطاعت میں زینے سبھی طے کر لیں
ایسے نہ چلیں رستہ منزل سے ہوں بیگانہ
بیعت میں تری آئے سر آنکھوں پہ رکھتے ہیں
ہم تک جو پہنچتے ہیں ارشاد مسیحانہ
تو نبض شناس ایسا نائب ہے مسیحا کا
پائی ہے شفا اس نے جس نے تجھے پہچانا
ہو عمرِ خضر ایسی فعّال عطا تجھ کو
ہو جائیں سبھی حاصل مقصد ترے تابانہ
آئیں وہ نظر آنکھیں جو اشک بہاتی ہیں
مشکل ہے محبّت کے آثار بتا پانا
اقرار محبّت کا کرتے ہیں وہ مستی میں
قدرت نے جنہیں بخشی ہے جُراَتِ رندانہ
مجھ پر بھی نظر کر دے ہو جائے سپھل جیون
اک تیری محبّت میں طارق بھی ہے مستانہ

0
17