اپنے پیروں کو سمیٹو سبھی سر پر رکھ دو
حکمِ آقا ہے، غلامو، مرے در پر رکھ دو
توڑ کر تم جو ستاروں کو فلک سے، اچھا
لے ہی آئے تو کسی اور کے گھر پر رکھ دو
اف یہ دنیا ہے زمانہ بھی ہے گھر والے بھی
سو سبھی مجھ سے کئے عہد اگر پر رکھ دو
ہم بھی دنیا کا زمانے کا حوالہ رکھ دیں
تم بھی بنیاد ہر اک عہد کی ڈر پر رکھ دو
روشنی میری کہیں دیکھ نہ لے بے ستری
تم جہاں بھر کے اندھیرے مرے گھر پر رکھ دو
میں بھی برجیس و ثریاؤں کا ہمسر ٹھہروں
تم جو اک بالِ ہما گر مرے سر پر رکھ دو
جس کو تقدیر کا کہتے ہیں، زمانے والے
وہ ستارہ کوئی لا کر مرے در پر رکھ دو
اک دیا بھی نہ لہو دے کے جلانے والو
ظلمت شب کا بھی الزام سحر پر رکھ دو
میں قفس میں کسی قیمت نہیں دفنا سکتا
لاش تم میری اٹھا کر مرے پر پر رکھ دو
آستانوں پہ چڑھاووں سے کہیں بہتر ہے
ہاتھ بڑھ کر کسی نادار کے سر پر رکھ دو
اس کا شرمانے لجانے کا سبب ہو کوئی
سارا الزام حبیب اپنی نظر پر رکھ دو

0
36