| نادان کو بالکل ہی سمجھنا بھی نہیں ہے |
| ضدی ہے ذرا اس کو بدلنا بھی نہیں ہے |
| گر شمع جلی رات گئے لاکھ یہاں پر |
| پروانے کو ہرگز ہی مچلنا بھی نہیں ہے |
| موسم یہ بہاروں کا نہ چھا جائے چمن میں |
| پھولوں کو تو پھر جیسے مہکنا بھی نہیں ہے |
| کمزوروں غریبوں سے بھی ہمدردی جتائیں |
| پیروں تلے مفلس کو کچلنا بھی نہیں ہے |
| طوفاں کا اشارہ جوں ہی مل جائے کسی کو |
| ساحل سے مگر تب تو نکلنا بھی نہیں ہے |
| محبوب نے ناصؔر ہمیں جب مان لیا تو |
| اب دل کو کسی حال سنبھلنا بھی نہیں ہے |
معلومات