جب فقط ڈھانے کو مسجد کی عمارت رہ گئی
کون کہتا ہے کہ ایماں کی تجارت رہ گئی
ہے مگر ان کو غرض کرسی پہ اب بیٹھے گا کون
سرخرو ہو کر بھی کس کس کی وزارت رہ گئی
ایک دوجے کے لئے عبرت کا باعث تو ہوئے
ہاں مگر حق بات کہنے کی جسارت رہ گئی
دیں کی غیرت کے لئے اٹھتا نہیں کوئی سوال
زندگی کی کیا کہیں باقی حرارت رہ گئی
دھجّیاں اڑتی ہیں ایوانوں میں اس کی آئے دن
اب فقط آئین کی باقی عبارت رہ گئی
ہو گیا جمہوریت کے نام سے اتنا مذاق
توڑنے کو ملک باقی کیا شرارت رہ گئی
خون کے آنسو رلاتی ہے انہیں یہ داستاں
جن کے آبا کی سبھی محنت اکارت رہ گئی
وہ دعا کرتے ہیں طارق جو وطن کے خیر خواہ
ہیں بہت تھوڑے مگر جن میں بصارت رہ گئی

0
6