وہ شکل تھی خواب سی کوئی خواب تھا جنوں سا
یا وہ حقیقت تھی یا یونہی چھایا تھا فسوں سا
نہ وقت کے ساتھ درد کی شورشیں ہوئی کم
وہی فسانہ ہے برپا گزرے ہوئے دنوں سا
وہ کون تھا میرا کیا مراسم تھے میرے اس سے
کسے کہیں کون سمجھے یارانہ دشمنوں سا
وہ جسکو ہر آرزُو سے بیگانہ کر دیا ہے
وہ دیکھ کن جنگلوں میں پھرتا ہے پاگلوں سا
وہ تیری نگری تھی یا کوئی دشت وحشتوں سا
کہیں وہ موسم ملا نہیں دل کی وادیوں سا
جنوں کے صحرا میں وقت کی ریت پر لہو سے
خدا نے کھینچا ہے نقشہ اجڑے ہوئے دلوں سا
میں سمجھا تھا جتنے بھی تھے سب لوگ مر گئے ہیں
یہ کون چھیڑے ہوئے ہیں یوں ساز سسکیوں سا
گلی گلی سرخ ہے یہاں کوچہ کوچہ ہے خوں
کہ میرے اس شہر کا بھی ہے حال مقتلوں سا

34