آ تجھ کو دکھاؤں، دلِ بیتابِ نظارا
اس قوم کو تسخیر کیا جس نے جہاں را
اب بحرِ مسلماں میں نہیں جوش و تلاطم
آشوبِ قیامت سے ہے محروم کنارا
نہ ان کے جوانوں میں ہی اب عزم و جنوں ہے
پِیروں میں بھی باقی نہ رہا جوہرِ دارا
تعلیم و تجارت میں سیاست میں ہے پیچھے
گردش میں ہے تقدیرِ مسلماں کا ستارا
غافل ہو جہاں مذہب و ملت کا نگہباں
اسلام و مسلماں کا وہاں کون سہارا
فرسودہ تخیل ہے مسلماں کا مگر اب
پَیروں میں کبھی ہوتا تھا تاجِ سرِ دارا
ہے سوزِ دروں سرد جہاں میں تو اسی کا
ہوتا تھا کبھی شعلہ فشاں جس کا شرارا
ہو اوجِ ثریا پہ مسلماں کی نگہ کیوں
اقوامِ جہاں کو یہ مگر کیوں ہو گوارا
دے کر کہ اسے خاک نشینی کا تصور
قوموں نے اسے بامِ تخیل سے اتارا
ہے بارِ گراں دوشِ جواں پر ترے شاہؔی
پھر لے جا اسے بامِ فلک پر تو خدارا

1
92
شکریہ محترم