خدا تجھ کو شناسی دے زمین و آسماں سمجھے
کہ دردِ دل سے تو ہر بے زباں کی بھی زباں سمجھے
سنو لوگو اٹل ہے زندگی کا فیصلہ تو پھر
مجھے دکھ ہے جو دنیا مستقل اپنا جہاں سمجھے
کیا مطلب وہ سمجھیں گے سماں الفقر فخری کا
نہ جو مظلوم کے نالے نہ جو آہ و فغاں سمجھے
غزل میں جب سنائی زندگی کی داستاں میں نے
سبھی روئے جو کل میرے دکھوں کو ناتواں سمجھے
سنو ہم وقت کے ساتھی اجالا بن کے ابھرے ہیں
وہ سب کچھ کر کے گزرے ہیں جنہیں وہم و گماں سمجھے
یہ جو ہیں آج در پر در بدر حامی زمانے میں
بھلا رب کی محبت کے اصولوں کو کہاں سمجھے

3