دل ہتھیلی پہ تھا یار تھا سامنے |
دل کو ٹھکرا دیا شوخ اندام نے |
کچھ نہ بولا زباں سے چپک سا گیا |
لفظ اٹکا دیا دلِ ناکام نے |
کم نسب تھا زمانے کی دھتکار تھی |
اس پہ رسوا کیا انکی دشنام نے |
غم کے بادل تھے ارزاں تھی یوں زندگی |
مجھ کو دہلا دیا خوف کے دام نے |
کچھ اداسی تھی ماحول میں تھی گھٹن |
مجھ کو بہلا دیا آپ کے نام نے |
پارسائی تھی برسوں کی بس اس گھڑی |
دل کو بہکا دیا شعرِ خیام نے |
میں زمیں پر تھا وہ آسماں میں کہیں |
مجھ کو پہنچا دیا ایک ہی جام نے |
ایک جھٹکے میں روح جسم کو چھوڑ کر |
ان کو جا کے ملی ایک ہی گام میں |
انکے چہرے دکھی انکی آنکھوں ہیں نم |
ان کو تڑپا دیا میرے انجام نے |
دربدر انکو ڈھونڈوں وہ گھر میں میرے |
گھر کو مہکا دیا ان کی مشام نے |
معلومات