| یادیں... |
| کانٹے ہیں، |
| جو وقت کی گزرگاہوں میں بکھر جاتے ہیں۔ |
| قدم اُٹھائیں تو چبھتے ہیں، |
| رُک جائیں تو رستے ہیں۔ |
| یہ خوشبو ہیں، |
| پرانی کتابوں کے ورقوں میں چھپی، |
| جو ہر بار کھلنے پر دل کو گدگدا دیتی ہے، |
| اور پھر اُداسی کی دھند میں لپیٹ لیتی ہے۔ |
| یادیں... |
| کبھی ہنساتی ہیں، |
| کبھی رُلاتی ہیں، |
| اور کبھی ایسا لگتا ہے |
| کہ دل پر پتھر رکھ دیا گیا ہو۔ |
| عذاب ہیں یہ یادیں، |
| جن سے نہ فرار ممکن، |
| نہ ہی سامنا آسان۔ |
| یہ روح کے زخم ہیں، |
| جو کبھی نہیں بھرتے۔ |
| اور ہم... |
| ہم ان یادوں کے قیدی، |
| انہیں سینے سے لگائے، |
| اپنی زندگی کے دن گن رہے ہیں۔ |
معلومات