جو دیپ کہ ہاتھوں میں سرِ شام لیا ہے
در اصل وہ طاعت ہی کا انعام لیا ہے
آشُفتہ تھپیڑوں کی رہا زد میں ہمیشہ
یہ فضل ترا ہے کہ مُجھے تھام لیا ہے
اک اور بھی جاں ہو تو وہ اس نام پہ قرباں
پھر اس نے محبّت سے مرا نام لیا ہے
ممکن نہیں میں گن سکوں احسان ترے سب
یہ تیری عنایت ہے کہ کچھ کام لیا ہے
کیسے مجھے بھولے گا نشّہ میں نے جو اک بار
مے خانے میں جا کر بھی کوئی جام لیا ہے
تنہائی میں چپکے سے جو نکلے کبھی گھر سے
ہمراہ حبیبوں کو سرِ عام لیا ہے
طارق کبھی سوچا ہے کہ ہے کون مقابل
لڑنے کو جو ہاتھوں میں قلم تھام لیا ہے

0
11