نفرت کے کئی تیر اب سینے میں جڑے ہیں
بھائی بھی مرے آج مجھی سے ہی لڑے ہیں
سُولی پہ جو لٹکا تو کوئی ساتھ نہیں تھا
اب تخت پہ بیٹھا ہوں تو سب ساتھ کھڑے ہیں
قسمت کا شجر دیکھ کے صدمے میں ہوں اب تک
قسمت کے سبھی پتے تو پہلے سے جھڑے ہیں
یہ قوم یہ مذہب یہ سیاست یہ روایت
ہر ایک کی قبروں میں کئی مردے گڑے ہیں
جب پاس سے دیکھا تو کھلا مجھ پہ یہ شاہدؔ
سائے یہاں لوگوں کے تو ان سے بھی بڑے ہیں

44