| اپنوں پر بھی بھروسہ ہرگز ہمارا رہا نہیں |
| پیار بھی جن سے کرتے تھے اب وہ پیارا رہا نہیں |
| ایک محبوب سے ملاقات طے پائی تھی مگر |
| وصل تقدیر میں ہو شاید یہ لکھا رہا نہیں |
| عشق میں تب مزہ ملے، جب ہو یکساں تڑپ لگی |
| آگ یک طرفہ ہو مزہ و لطف آتا رہا نہیں |
| بیوفائی اگر محبت میں ہو جاتی ہے کبھی |
| جان لیں ہمسفر بھی ایسے میں اپنا رہا نہیں |
| عہد و پیماں نبھانے ہی گر ہوں ناصؔر تو کہہ سکیں |
| آپسی اب تنازعہ اور جھگڑا رہا نہیں |
معلومات