اپنوں پر بھی بھروسہ ہرگز ہمارا رہا نہیں
پیار بھی جن سے کرتے تھے اب وہ پیارا رہا نہیں
ایک محبوب سے ملاقات طے پائی تھی مگر
وصل تقدیر میں ہو شاید یہ لکھا رہا نہیں
عشق میں تب مزہ ملے، جب ہو یکساں تڑپ لگی
آگ یک طرفہ ہو مزہ و لطف آتا رہا نہیں
بیوفائی اگر محبت میں ہو جاتی ہے کبھی
جان لیں ہمسفر بھی ایسے میں اپنا رہا نہیں
عہد و پیماں نبھانے ہی گر ہوں ناصؔر تو کہہ سکیں
آپسی اب تنازعہ اور جھگڑا رہا نہیں

0
57