وصالِ یار کو دل اس طرح مچلتا رہا
میں تیز دھوپ میں بھی تیز تیز چلتا رہا
اگرچہ رات تھی تاریک اور طویل بہت
سحر کی آس میں دل کا دیا تو جلتا رہا
وہ آیا سامنے تو آفتاب کی مانند
ہوئی جو روشنی سایہ دُکھوں کا ڈھلتا رہا
نہ جان پایا حقیقت جو سامنے پا کر
خبر ملی تو وہ ہاتھوں کو اپنے مَلتا رہا
نوید کیسے سنائیں ہم اُس کو منزل کی
قدم قدم جو نیا راستہ بدلتا رہا
حسد نے دشمنوں کو اس طرح جلا ڈالا
لبوں سے دیر تک ان کے دُھواں نکلتا رہا
وہ جان پائے گا کیا قدر اس گلستاں کی
جو اپنے ہاتھوں سے پھولوں کو خود مسلتا رہا
مریض کیسے شفا پائے وہ مسیحا سے
ہمیشہ زہر جو اُس کے لئے اُگلتا رہا
عجیب شخص تھا طارق میں دیر سے سمجھا
وہ اپنی خواہشیں میرے لئے کچلتا رہا

0
34