اقرار کی حقیقت کا اپنا ہی مزہ ہے
انکار کی شرارت کا اپنا ہی مزہ ہے
حاصل کبھی کسی دن میں اس کو کر ہی لوں گا
ناکام تو ہے حسرت کا اپنا ہی مزہ ہے
محبوب دیکھے دیوانے کو تباہ ہوتے
شاہانہ سی رعونت کا اپنا ہی مزہ ہے
لینا ہو جو بھی لینا پڑتا ہے مانگ کر ہی
کمتر تو ہے پہ عظمت کا اپنا ہی مزہ ہے
آواز اس کی کرتی ہے ختم لاغری کو
آواز کی سماعت کا اپنا ہی مزہ ہے
ہے خود ہی وہ تماشائی خود ہی وہ مداری
اعجازؔ ایسی جلوت کا اپنا ہی مزہ ہے

0
57