تو ہی قیامِ شوق ہے، تو ہی عروسِ شام بھی
تیرے خرامِ ناز پر، واری مہِ تمام بھی
جب سے اٹھا ہے وہ حجاب، دل میں ہے اک ہجومِ جشن
سازِ طرب ہیں بج رہے، اور ہے رقصِ جام بھی
ان کی ادائے شوخ نے، لہرا کے تیغِ بے نیام
فتح کیا یہ دل مرا، جاں کو کیا غلام بھی
چلنا سنبھل سنبھل کے یہ، بھول بھلیّاں ہے جناب
ہاں یہی جس کو 'راہِ عشق'، کہتے ہیں خاص و عام بھی
دیکھے ہیں جن کے واسطے، درد و الم تمام عمر
چہرہ تو دور وہ حیاتؔ، بھول گئے ہیں نام بھی

0
55