قربتِ یار کھل رہی ہوگی
یا ارادہ بدل رہی ہوگی
ایسے خوش فہمیوں کے جنگل میں
اک غلط فہمی پل رہی ہوگی
خود سے ملنے کی آرزو میں وہ
خود سے باہر نکل رہی ہوگی
ہجر کے اس اندھیرے آنگن میں
یاد بن کر وہ جل رہی ہوگی
عشق بے کار تھا، سمجھ کر اب
وہ حقیقت بدل رہی ہوگی
یادوں کا بوجھ اور تنہائی
وہ ہنسی میں نگل رہی ہوگی
وقت سے ہار مان کر آخر
اب وہ چپ چاپ چل رہی ہوگی
کون جانے کہ کس اندھیرے میں
وہ نظر سے نکل رہی ہوگی
اک مسافت ہے جسم و جاں کے بیچ
روح شاید نکل رہی ہوگی
ہم تو اب خود سے بھی گریزاں ہیں
وہ بھی خود سے بہل رہی ہوگی
دیکھ کر آئینے میں اپنا ہی بدن
آپ ہی سے وہ جل رہی ہوگی
ہم بھی اب دل کا بوجھ کم کر لیں
وہ بھی شاید سنبھل رہی ہوگی
درد کی دھوپ چھاؤں میں اب وہ
خود سے دوری پہ چل رہی ہوگی
کیا خبر اب وہ موم سی مورت
کس نظر میں پگھل رہی ہوگی
ہم جو خاموش ہیں تو یہ سوچو
کس قدر بات چل رہی ہوگی
دل کے اندر نہ جھانکو اب کہ وہاں
اک تمنا مچل رہی ہوگی
اس تخیل کی خواب سی وہ غزال
شاعری میں غزل رہی ہوگی

17