مہر و مہ و انجم کو ہو کیونکر یہ گوارہ
اس خستہ زمیں پر ہو کوئی چاند کا پارہ
کیا کیا تری آنکھوں پہ لکھوں روپ کی رانی
کالی سی گھٹا میں کوئی روشن سا ستارہ
رخسار ہیں ابھرے جیسے موتی تہہ و بالا
اس پر یہ ترے آتِشیں ہونٹوں کا شرارہ
زلفوں کی سیاہی میں کوئی شام چھپی ہے
چہرے پہ ترے نازاں ہے یہ صبحِ نظارہ
گیسو کی درازی میں ترے ٹھہرے مسافر
ہے گرمئ شب میں یہ سمندر کا کنارہ
اس ناز کی مورت کو سدا دیکھ ٹھہر کے
گردوں کی بلندی سے کرے چاند اشارہ
راہوں پہ بجھی ہے تری اک دیدۂ بے خواب
اک پل بھی نہیں تیرے بنا اس کا گزارہ
اک میں ہوں کہ جو وجہِ تبسم بھی نہیں ہے
اک تو ہے دلِ ناداں کی آنکھ کا تارہ
یک جنبشِ لب پے ترے کلیاں ہیں نچھاور
سانسوں کی مہک سے ترے قائم ہے ادارہ
یوں تو نہیں ممکن ہے وہاں میری رسائی
کرتا ہوں مگر روز ہی صورت کا نظارہ
اک عمر چلے شاعری ثانؔی کی جہاں میں
کچھ درد ہی دیتے رہو از راہِ اجارہ

1
95
شکریہ