مہر و مہ و انجم کو ہو کیونکر یہ گوارہ |
اس خستہ زمیں پر ہو کوئی چاند کا پارہ |
کیا کیا تری آنکھوں پہ لکھوں روپ کی رانی |
کالی سی گھٹا میں کوئی روشن سا ستارہ |
رخسار ہیں ابھرے جیسے موتی تہہ و بالا |
اس پر یہ ترے آتِشیں ہونٹوں کا شرارہ |
زلفوں کی سیاہی میں کوئی شام چھپی ہے |
چہرے پہ ترے نازاں ہے یہ صبحِ نظارہ |
گیسو کی درازی میں ترے ٹھہرے مسافر |
ہے گرمئ شب میں یہ سمندر کا کنارہ |
اس ناز کی مورت کو سدا دیکھ ٹھہر کے |
گردوں کی بلندی سے کرے چاند اشارہ |
راہوں پہ بجھی ہے تری اک دیدۂ بے خواب |
اک پل بھی نہیں تیرے بنا اس کا گزارہ |
اک میں ہوں کہ جو وجہِ تبسم بھی نہیں ہے |
اک تو ہے دلِ ناداں کی آنکھ کا تارہ |
یک جنبشِ لب پے ترے کلیاں ہیں نچھاور |
سانسوں کی مہک سے ترے قائم ہے ادارہ |
یوں تو نہیں ممکن ہے وہاں میری رسائی |
کرتا ہوں مگر روز ہی صورت کا نظارہ |
اک عمر چلے شاعری ثانؔی کی جہاں میں |
کچھ درد ہی دیتے رہو از راہِ اجارہ |
معلومات