| زندانِ شام میں ہے سکینہ گزر گئی |
| بابا کو یاد کرتی ہے مخدومہ مر گئی |
| کچھ دیر پہلے اس نے ماں کہہ کے پکارا تھا |
| اب ڈھونڈتی ہے ماں وہ سکینہ کدھر گئی |
| اصغر کو وہ خیال میں دیتی تھی لوریاں |
| اصغر کی طرح جھولی وہ سنسان کر گئی |
| پانی ملے جو اُس کو تو باقر کو وہ پلائے |
| بابا کی نسل ایسے وہ آباد کر گئی |
| اکبر کے گر جگر میں ہے ٹوٹی ہوئی سناں |
| رسی میں قید یہ بھی لحد میں اتر گئی |
| رخساروں پر تھے نیلے تماچوں کے وہ نشاں |
| امت کے ظلم سہتی یہ زہرا بھی مر گئی |
| سرور کو اپنی ضربیں بھی پھر یاد نا رہیں |
| جب جب شبیر کی ہے یہ اِس پر نظر گئی |
| شفقت یہ لکھے گا کیا شہزاد کیا پڑھے |
| آلِ رسول ظلم سے کتنی بکھر گئی |
معلومات