شہرِ حبیب میرے دل کا ٹھکانہ ہے
رہتا خیال میں بھی یہ آستانہ ہے
دائم قیام ہو اب شہرِ مدینہ میں
نامِ نبی پہ قُرباں ہونا نشانہ ہے
قدموں میں مُصطفیٰ کے گُزرے یہ زندگی
بطحا رہوں میں جب تک یہ آب و دانہ ہے
کافُور حشر کی بھی ساری ہوں سختیاں
بردہ ہوں دلربا کا یہ ہی بہانہ ہے
دارین میں اے مولا ان کا گدا رہوں
میری جو زندگی میں عیشِ زمانہ ہے
مولا زباں رہے تر تا وقتِ واپسی
مقصد جو زندگی کا اُن کا ترانہ ہے
تن من و دھن میں اپنا آقا پہ وار دوں
کامل یہ زندگی ہے اس کا فسانہ ہے
بُل بُل ہوں باغِ بطحا تیری طلب مجھے
تیرے کسی شجر پر اک آشیانہ ہے
دلبر کبھی میں دیکھوں وہ رونقیں حسیں
جو شہر اس دہر میں سب سے یگانہ ہے
عشقِ نبی میں پنہاں حسن و جمال بھی
شاہد جہاں میں ان کا یہ در سہانہ ہے
محمود جن پہ راضی مولا سدا رہا
وہ سلسلے میں اعلیٰ ان کا گھرانہ ہے

32