خیالوں خوابوں میں صورت تری سجائی ہے
نہیں سلیقہ مگر رسم تو نبھائی ہے
ہے سب قصور تری اُن حسین آنکھوں کا
انہیں ہی دیکھ کے دنیا میں نے بھلائی ہے
کوئی خوشی بھلا کیسے نصیب ہو مجھ کو
کہ میری قسمتوں میں تم سے بس جدائی ہے
مجھے نہ بھایا کبھی تیرا غیروں سے رشتہ
تو تونے غیر کو آواز کیوں لگائی ہے
میں روز آتا ہوں تیری گلی میں میرے دوست
وقاص تم نے ہی ہم سے نظر چھپائی ہے

64