بے بسی میں ہوئے لاچار سے کیا ٹکرائے
بن گئی بات ذرا یار سے کیا ٹکرائے
دیکھتے ہیں ہمیں سب کھول کے کھڑکی گھر کی
پی کے پیمانہ سا دیوار سے کیا ٹکرائے
انکشافات ہوئے مجھ پہ حقیقت کے بھی
لوگ مجھ سے ، مری تکرار سے کیا ٹکرائے
ٹھن گئی رات کی بھی تو خیالوں سے کچھ
سلسلے یادوں کے شب تار سے کیا ٹکرائے
روشنی پڑ گئی مدھم سی مری آنکھوں کی
وقت کی پاؤں بھی رفتار سے کیا ٹکرائے
اک رہا رشتہ یوں قائم یہ ہمارا اس سے
سچ سدا اپنے جو سر دار کیا ٹکرائے
جذب مٹی میں ہوا خون مرا چپ شاہد
میرے جذبات یوں افکار سے کیا ٹکرائے

0
56