ستمگری کا تماشا لگائے رکھتے ہو |
مجھے کیوں اپنا نشانہ بنائے رکھتے ہو |
ارادہ کیا ہے تمھارا کہ چاہتے کیا ہو |
زمین ساری جو سر پر اٹھائے رکھتے ہو |
سزاؤں میں بھی سزا سخت دیتے ہو مجھ کو |
رقیب سامنے میرے بلائے رکھتے ہو |
ملے گا تم کو صلہ مجھکو یوں ستانے کا |
سخن سے اپنے جو مجھکو جلائے رکھتے ہو |
مری یہ سوزِ تمنا کی آگ بجھ جائے |
عجیب آس جو مجھ سے لگائے رکھتے ہو |
کبھی وہ وقت تھا فرصت نہ تھی محبت سے |
ابھی یہ وقت ہے سب کچھ بھلائے رکھتے ہو |
عیاں ہے رخ سے ترے داستاں زمانوں کی |
جو نقش ہم نے بنائے چھپائے رکھتے ہو |
فقط جو ہم نے بنے خواب وصل کے یارا |
ہماری آس کو تم کیوں مٹائے رکھتے ہو |
تجھے ہمایوں ملے گی نہ کوئی منزل پھر |
کیوں اپنے خواب سہانے سجائے رکھتے ہو |
ہمایوں |
معلومات