ستمگری کا تماشا لگائے رکھتے ہو
مجھے کیوں اپنا نشانہ بنائے رکھتے ہو
ارادہ کیا ہے تمھارا کہ چاہتے کیا ہو
زمین ساری جو سر پر اٹھائے رکھتے ہو
سزاؤں میں بھی سزا سخت دیتے ہو مجھ کو
رقیب سامنے میرے بلائے رکھتے ہو
ملے گا تم کو صلہ مجھکو یوں ستانے کا
سخن سے اپنے جو مجھکو جلائے رکھتے ہو
مری یہ سوزِ تمنا کی آگ بجھ جائے
عجیب آس جو مجھ سے لگائے رکھتے ہو
کبھی وہ وقت تھا فرصت نہ تھی محبت سے
ابھی یہ وقت ہے سب کچھ بھلائے رکھتے ہو
عیاں ہے رخ سے ترے داستاں زمانوں کی
جو نقش ہم نے بنائے چھپائے رکھتے ہو
فقط جو ہم نے بنے خواب وصل کے یارا
ہماری آس کو تم کیوں مٹائے رکھتے ہو
تجھے ہمایوں ملے گی نہ کوئی منزل پھر
کیوں اپنے خواب سہانے سجائے رکھتے ہو
ہمایوں

0
16