عشق و الفت کے خیالات سے ڈر لگتا ہے |
اور غمِ ہجر کے لمحات سے ڈر لگتا ہے |
جھوٹے پیماں سے ، ملاقات سے ڈر لگتا ہے |
سو مجھے! عشق کی خیرات سے ڈر لگتا ہے |
عشق کو کھیل سمجھ کر جو اسے کھیلتے ہیں |
کیا کبھی یار انہیں ، مات سے ڈر لگتا ہے ؟ |
عشق میں رنج و الم دے وہ سکوں کے بدلے |
اک اسی بات اسی بات ، سے ڈر لگتا ہے |
آستینوں میں یہاں سانپ کی مانند ہیں جو |
زیست میں ایسے ہی حضرات سے ڈر لگتا ہے |
عشق کیا ہوتا ہے ؟ کہتے ہیں کسے اہلِ وفا ؟ |
رہبر ! ان سارے سوالات سے ڈر لگتا ہے!! |
معلومات