اُس سے ہو جائے ملاقات یہ وعدہ بھی نہیں |
اُس کی رحمت سے تو مایوس زیادہ بھی نہیں |
سر میں سودا جو سمایا ہے اسے ملنے کا |
چل پڑا ہوں مرا رُکنے کا ارادہ بھی نہیں |
میرے دامن پہ اگرچہ ہیں ہزاروں دھبّے |
روکنے والا مجھے میرا لبادہ بھی نہیں |
مجھ کو رستے میں میسّر رہے سامانِ سفر |
دُور سے آیا ہوں لیکن میں پیادہ بھی نہیں |
یوں تو کہنے کو مرے پاس بہت باتیں تھیں |
لب ہوئے سامنے اس کے تو کشادہ بھی نہیں |
جس کی مژگاں پہ مجھے تارے نظر آئے تھے |
دُکھ اُسے مجھ سے بچھڑنے کا زیادہ بھی نہیں |
مست آنکھوں سے پلائی ہے مجھے ساقی نے |
میں نشے میں ہوں مگر ہاتھ میں بادَہ بھی نہیں |
ہم تو گھر سے اسے دل دے کے چلے تھے طارق |
ہاتھ تھاما تو کسی کا سرِ جادہ بھی نہیں |
معلومات