کیوں نقل بِنا پہچانِ اَصل نہیں؟ |
وہ ہِجر سکھاتا ہے جو وَصل نہیں |
ہے جانچ بھروسے کی ہی فیصلہ کُن |
پیمانہِ انتخاب تَو شکل نہیں |
پیماں کیے اُس نے فرطِ جوش میں تھے |
وعدوں پے عمل پیرا ہو سہل نہیں |
پیشہ وروں کا پتہ بھی پانی ہے یہاں |
یہ زندگی بچوں کا کوئی شُغل نہیں |
اپنے ہاتھوں کے لگی ہیں یہ گرہیں |
کچھ لوحِ قدر کا اس میں دخل نہیں |
کیوں فن و ہنر سے ہے اب تک تہی دست |
آزادی کا مطلب شکنِ قُفل نہیں |
جاں وقف کیے بیٹھے ہیں مِؔہر مگر |
احساں مند ہو گی پھر بھی نسل نہیں |
--------٭٭٭--------- |
معلومات